سہانے سپنے آئے ہیں
لبھانے سپنے آئے ہیں
مجھے منزل کی دعوت ہے
بلانے سپنے آئے ہیں
مری بیدار آنکھوں کو
سجانے سپنے آئے ہیں
میں اک مدت سے سویا تھا
جگانے سپنے آئے ہیں
مجھے پانے تم آئے ہو
گنوانے سپنے آئے ہیں
یہ سپنے جا نہیں سکتے
چرانے سپنے آئے ہیں
یہ ارماں پھر سے توڑیں گے
دکھانے سپنے آئے ہیں
نیا سا کھیل ہے کوئی
پرانے سپنے آئے ہیں
مجھے تو آخری دم تک
ہنسانے سپنے آئے ہیں
عجب مہتابؔ آنکھوں کے
دوانے سپنے آئے ہیں

غزل
سہانے سپنے آئے ہیں
بشیر مہتاب