سبک سا درد تھا اٹھتا رہا جو زخموں سے
تو ہم بھی کرتے رہے چھیڑ چھاڑ اشکوں سے
سبھی کو زخم تمنا دکھا کے دیکھ لیے
خدا سے داد ملی اور نہ اس کے بندوں سے
دھواں سا اٹھنے لگا فکر و فن کے ایواں میں
لہو کی باس سی آنے لگی ہے شعروں سے
اب ان سے دیکھیے کب منزلیں ہویدا ہوں
اٹھا کے لایا ہوں کچھ نقش تیری راہوں سے
بلک رہا ہے نگاہوں میں حسرتوں کا ہجوم
لٹک رہی ہیں پتنگیں اداس کھمبوں سے
اب اور کس سے ترے غم کا تذکرہ کرتے
تمام رات رہی گفتگو ستاروں سے
بس ایک جست میں افلاک سے نکل جاؤں
پھلانگ جاؤں زمیں کو میں چار قدموں سے
غزل
سبک سا درد تھا اٹھتا رہا جو زخموں سے
اسلم حبیب