EN हिंदी
صبح کو چین نہ ہو شام کو آرام نہ ہو | شیح شیری
subh ko chain na ho sham ko aaram na ho

غزل

صبح کو چین نہ ہو شام کو آرام نہ ہو

سرور عالم راز

;

صبح کو چین نہ ہو شام کو آرام نہ ہو
اس سے بہتر ہے مری صبح نہ ہو شام نہ ہو

محفل دور غزل صرف مے و جام نہ ہو
زندگی میری بھلا کیسے بد انجام نہ ہو

ہر گھڑی سامنے ہے سلسلۂ دار و رسن
تجھ سا ظالم کوئی اے گردش ایام نہ ہو

نا مرادی کی شکایت ذرا یہ تو سوچیں
نا مرادی ہی کہیں عشق کا انعام نہ ہو

مجھ کو دنیا سے ہے امید وفا کی اب تک
کوئی بھی اس طرح سر گشتۂ اوہام نہ ہو

شوق ہے تجھ کو زمانہ میں ترا نام رہے
اور مجھے ڈر ہے محبت مری بد نام نہ ہو

کوئی دن جاتا ہے محفل میں بکھر جائے گی
اپنی حالت پہ پریشاں دل ناکام نہ ہو

تو نے کب عشق میں اچھا برا سوچا سرورؔ
کیسے ممکن ہے کہ تیرا برا انجام نہ ہو