EN हिंदी
صبح کے شور میں ناموں کی فراوانی میں | شیح شیری
subh ke shor mein namon ki farawani mein

غزل

صبح کے شور میں ناموں کی فراوانی میں

ثروت حسین

;

صبح کے شور میں ناموں کی فراوانی میں
عشق کرتا ہوں اسی بے سر و سامانی میں

سورما جس کے کناروں سے پلٹ آتے ہیں
میں نے کشتی کو اتارا ہے اسی پانی میں

صوفیہ، تم سے ملاقات کروں گا اک روز
کسی سیارے کی جلتی ہوئی عریانی میں

میں نے انگور کی بیلوں میں تجھے چوم لیا
کر دیا اور اضافہ تری حیرانی میں

کتنا پر شور ہے جسموں کا اندھیرا ثروتؔ
گفتگو ختم ہوئی جاتی ہے جولانی میں