صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا
مرغ سحر کے بولتے ہی دم نکل گیا
دامن پہ لوٹنے لگے گر گر کے طفل اشک
روئے فراق میں تو دل اپنا بہل گیا
دشمن بھی گر مرے تو خوشی کا نہیں محل
کوئی جہاں سے آج گیا کوئی کل گیا
صورت رہی نہ شکل نہ غمزہ نہ وہ ادا
کیا دیکھیں اب تجھے کہ وہ نقشا بدل گیا
قاصد کو اس نے قتل کیا پرزے کر کے خط
منہ سے جو اس کے نام ہمارا نکل گیا
مل جاؤ گر تو پھر وہی باہم ہوں صحبتیں
کچھ تم بدل گئے ہو نہ کچھ میں بدل گیا
مجھ دل جلے کی نبض جو دیکھی طبیب نے
کہنے لگا کہ آہ مرا ہاتھ جل گیا
جیتا رہا اٹھانے کو صدمے فراق کے
دم وصل میں ترا نہ امانتؔ نکل گیا
غزل
صبح وصال زیست کا نقشہ بدل گیا
امانت لکھنوی