EN हिंदी
صبح روشن کو اندھیروں سے بھری شام نہ دے | شیح شیری
subh-e-raushan ko andheron se bhari sham na de

غزل

صبح روشن کو اندھیروں سے بھری شام نہ دے

'امیتا پرسو رام 'میتا

;

صبح روشن کو اندھیروں سے بھری شام نہ دے
دل کے رشتے کو مری جان کوئی نام نہ دے

موڑ آتے ہی مجھے چھوڑ کے جانے والے
پھر سے تنہائیاں بے چینیاں کہرام نہ دے

مجھ کو مت باندھ وفاداری کی زنجیروں میں
میں کہ بادل ہوں بھٹک جانے کا الزام نہ دے

مطمئن دونوں ہیں میں اور میری طرز حیات
تشنگی میرے موافق ہے کوئی جام نہ دے

آسماں دینے کا اے دوست دکھاوا مت کر
مجھ کو اڑنے کی اجازت تو تہہ دام نہ دے

ہاں نبھائے ہیں محبت کے فرائض میں نے
مستحق بھی ہوں مگر کوئی بھی انعام نہ دے

دل کے افسانے کا آغاز حسیں ہے میتاؔ
سلسلہ یوں ہی چلے کوئی بھی انجام نہ دے