صبح نشور کیوں مری آنکھوں میں نور آ گیا
تیری نقاب الٹ گئی یا کوہ طور آ گیا
وہ بھی عجیب وقت تھا مجھ پہ حیات تنگ تھی
لیکن اسی عذاب میں جینا ضرور آ گیا
تم نے تو کوہ قاف میں عمر عزیز کاٹ دی
لیکن وہ طفل کیا کرے جس کو شعور آ گیا
اس عرصۂ حجاب کی آخر کو حد بھی ہے کہیں
تیری تلاش میں کوئی دنیا سے دور آ گیا
دنیا کو دیکھ دیکھ کے اپنی وضع بدل گئی
ورنہ وہ نور میں ہی تھا جو سر طور آ گیا
زاہد اسے برا نہ کہہ مانا کہ رنگ سرخ ہے
آنکھوں سے مے چھلک گئی دل کو سرور آ گیا
غزل
صبح نشور کیوں مری آنکھوں میں نور آ گیا
رسول ساقی