EN हिंदी
صبح نو لاتی ہے ہر شام تمہیں کیا معلوم | شیح شیری
subh-e-nau lati hai har sham tumhein kya malum

غزل

صبح نو لاتی ہے ہر شام تمہیں کیا معلوم

فیض الحسن

;

صبح نو لاتی ہے ہر شام تمہیں کیا معلوم
زخم خوشیوں کے ہیں پیغام تمہیں کیا معلوم

بھول کر بھی جو کسی بزم میں آیا نہ گیا
سینکڑوں اس پہ ہیں الزام تمہیں کیا معلوم

لوگ گلشن میں تو چلتے ہیں سرافرازی سے
ان میں کتنے ہیں تہہ دام تمہیں کیا معلوم

کچھ اندھیرے بھی خطا وار تباہی ہیں مگر
روشنی پر بھی ہے الزام تمہیں کیا معلوم

جس کو تم ڈھونڈتے ہو شمع رخ ناز لئے
وہ تو عرصے سے ہے گمنام تمہیں کیا معلوم

جو رخ زیست پہ تھا حرف غلط کی مانند
مل رہا ہے اسے انعام تمہیں کیا معلوم

جو کفن باندھ کے چلتے ہیں وفا کی رہ میں
زندگی کر چکے نیلام تمہیں کیا معلوم

سرخ رو کون ہوا کوچۂ جاناں میں کبھی
نامور بھی ہوئے بدنام تمہیں کیا معلوم

دو قدم بھی نہ چلے راہ وفا میں ہم لوگ
ہے ابھی ذوق طلب خام تمہیں کیا معلوم

جو جلا رات کی تنہائی میں اس پر بھی خیالؔ
بے وفائی کا ہے الزام تمہیں کیا معلوم