صبح فراق الاماں وصل کی شام الاماں
عجیب ہے بساط عشق عجب نظام الاماں
تھے کبھی جو سرخ رو وہ تو ہم نہیں رہے
تم تو ہو چنیں چناں تمہارا نام الاماں
گزر گئی یہ زندگی قدم قدم گھسیٹ کے
موت بھی آ رہی ہے کیا گام بہ گام الاماں
پھر رہا تھا جا بہ جا فقیر رزق کے لئے
آخر اسے غذا ملی وہ بھی حرام الاماں
ساری تلاش ہے عبث ساری طلب ہے رائیگاں
کار فضول عشق میں سب کچھ تمام الاماں
حرف کلام سے پرے حرف سکوت کا جہاں
کوئی نہیں پہنچ سکا نقش دوام الاماں
کھلتا نہیں ہمیشؔ پر عقدۂ فریب کیوں
کس نے بچھائے ہیں یہاں دانہ و دام الاماں
غزل
صبح فراق الاماں وصل کی شام الاماں
احمد ہمیش