صبح آتی ہے تو اخبار سے لگ جاتے ہیں
شام جو ڈھلتی ہے بازار سے لگ جاتے ہیں
عشق میں اور بھلا اس کے سوا کیا ہوگا
در سے اٹھتے ہیں تو دیوار سے لگ جاتے ہیں
جب گھڑی آتی ہے انصاف کی دھیرے دھیرے
جرم آ کر سبھی حق دار سے لگ جاتے ہیں
ہجر میں تیرے تو اک چپ سی لگی رہتی ہے
وصل میں باتوں کے انبار سے لگ جاتے ہیں
وقت آتا ہے جو سولی سے اترنے کا مری
سچ سمٹ کر مری گفتار سے لگ جاتے ہیں
اب کے موسم بھی عجب ہے تری باتوں جیسا
سن کے باتیں تری اشجار سے لگ جاتے ہیں
کھول دیتی ہے ہوس پہلے تو چھوٹی سی دکاں
دیکھتے دیکھتے بازار سے لگ جاتے ہیں
خواب ہے، جھوٹ ہے، مایا ہے یا کوئی وردان
ہم تو سب بھول کے سنسار سے لگ جاتے ہیں
غزل
صبح آتی ہے تو اخبار سے لگ جاتے ہیں
عزیز پریہار