سوتے سوتے اچانک گلی ڈر گئی
دوپہر چیل کی چیخ سے بھر گئی
ایک جھونکا رکا آ کے دالان میں
اک مہک دل کو بے چین سا کر گئی
وہ گھنے جنگلوں میں کہیں کھو گیا
یاد اس کی سمندر سمندر گئی
آج کی صبح تھی کس قدر مہرباں
پھول ہی پھول گلدان میں بھر گئی
گھر میں علویؔ نیا رنگ و روغن ہوا
شکل تھی ایک دیوار پہ مر گئی
غزل
سوتے سوتے اچانک گلی ڈر گئی
محمد علوی