سونے کے لب چاندی کے چہروں میں جڑے ہیں
ان سے بات نہ کرنا تم یہ لوگ بڑے ہیں
طوفانوں میں چلنا تو مشکل ہے لیکن
یہ ہمت بھی کیا کم ہے کچھ لوگ کھڑے ہیں
یہ اب کیا ڈھونڈ رہے ہو ان خالی آنکھوں میں
یہ گوشے تو برسوں سے ویران پڑے ہیں
کیسی کیسی انہونی باتیں ہوتی ہیں
کیسے کیسے دنیا نے الزام گڑھے ہیں
میز کتابیں کمرہ خط تصویر رسالے
ہم کیا چپ ہیں سب کے سب خاموش پڑے ہیں
نورؔ انہیں بھی اذن ملے کچھ آزادی کا
جو صدیوں سے جسموں کے جنگل میں پڑے ہیں
غزل
سونے کے لب چاندی کے چہروں میں جڑے ہیں
نور تقی نور