EN हिंदी
سوفار تصور ہے ستاروں کا ہدف ہے | شیح شیری
sofar-e-tasawwur hai sitaron ka hadaf hai

غزل

سوفار تصور ہے ستاروں کا ہدف ہے

اظہار اثر

;

سوفار تصور ہے ستاروں کا ہدف ہے
ہے فاتح افلاک یہ انساں کا شرف ہے

اک لمحۂ تخلیق کی آہٹ ہے کہیں پر
موتی کوئی نکلے گا ابھی بند صدف ہے

تو بھی تو ہٹا جسم کے سورج سے اندھیرے
یہ مہکی ہوئی رات بھی مہتاب بکف ہے

جس لفظ پہ سر اپنے کٹائے شہدا نے
تاریخ سیاست سے وہی لفظ حذف ہے

ہر سمت فرشتے ہیں کہ ترشے ہوئے پتھر
اس بھیڑ میں انساں کے لیے بھی کوئی صف ہے