سوفار تصور ہے ستاروں کا ہدف ہے
ہے فاتح افلاک یہ انساں کا شرف ہے
اک لمحۂ تخلیق کی آہٹ ہے کہیں پر
موتی کوئی نکلے گا ابھی بند صدف ہے
تو بھی تو ہٹا جسم کے سورج سے اندھیرے
یہ مہکی ہوئی رات بھی مہتاب بکف ہے
جس لفظ پہ سر اپنے کٹائے شہدا نے
تاریخ سیاست سے وہی لفظ حذف ہے
ہر سمت فرشتے ہیں کہ ترشے ہوئے پتھر
اس بھیڑ میں انساں کے لیے بھی کوئی صف ہے
غزل
سوفار تصور ہے ستاروں کا ہدف ہے
اظہار اثر