EN हिंदी
سوئے ہوئے جذبوں کو جگا کر پھر وہ شام نہ آئی | شیح شیری
soe hue jazbon ko jaga kar phir wo sham na aai

غزل

سوئے ہوئے جذبوں کو جگا کر پھر وہ شام نہ آئی

بشیر منذر

;

سوئے ہوئے جذبوں کو جگا کر پھر وہ شام نہ آئی
سنگ ترے بس اک دن آ کر پھر وہ شام نہ آئی

تیری باتوں کی خوشبو سے مہکی وادی وادی
پھولوں کے انبار لگا کر پھر وہ شام نہ آئی

ندی کنارے کا وہ منظر تکنے کو جی چاہے
کونجوں کی اک ڈار اڑا کر پھر وہ شام نہ آئی

بیٹھے بیٹھے جل اٹھتی ہیں بھیگی بھیگی آنکھیں
آب رواں میں آگ لگا کر پھر وہ شام نہ آئی

روز ہی سورج نکلے منظرؔ روز ہی سورج ڈوبے
میں جس کی راہ دیکھوں جا کر پھر وہ شام نہ آئی