سوچتا ہوں کہ اپنی رضا کے لیے چھوڑ دوں
وہ جو کہتا ہے اس کو خدا کے لیے چھوڑ دوں
چومنے کے لیے تھام رکھوں کوئی دم وہ ہاتھ
اور وہ پانوں رنگ حنا کے لیے چھوڑ دوں
شہر کو سارے لوگوں میں تقسیم کر دوں مگر
چند گلیاں میں اپنی صدا کے لیے چھوڑ دوں
خواہشیں تنگ ہیں دل کے اندر اگر تم کہو
یہ کبوتر تمہاری فضا کے لیے چھوڑ دوں
کار مشکل تو ہے ہی مگر میں بھی مجبور ہوں
ابتدا کو اگر انتہا کے لیے چھوڑ دوں
میرا ہرگز بھی کوئی بھروسا نہیں ہے اگر
میں روا کو یہاں ناروا کے لیے چھوڑ دوں
یہ بھی ممکن ہے خود سے کسی دن گزرتے ہوئے
اپنے ٹکڑے کہیں جا بجا کے لیے چھوڑ دوں
اب یہ سوچا ہے مٹھی میں عمر بقایا مری
جو بھی ہے ایک دیر آشنا کے لیے چھوڑ دوں
خود سے باہر نکل جاؤں میں اور خود کو ظفرؔ
کوئی دن جنگلوں کی ہوا کے لیے چھوڑ دوں
غزل
سوچتا ہوں کہ اپنی رضا کے لیے چھوڑ دوں
ظفر اقبال