سوچوں کے ہاتھوں کا گہنا ٹوٹ گیا
لفظوں سے لفظوں کا رشتہ ٹوٹ گیا
وقت نے نیندیں چھین لیں میری آنکھوں سے
تو تھا جس کی جان وہ سپنا ٹوٹ گیا
اس نے بس اک پھول چمن میں توڑا تھا
میرے اندر جانے کیا کیا ٹوٹ گیا
اب کے گاؤں میں جانا چاہا تھا لیکن
ایسی ہوئی برسات کہ رستہ ٹوٹ گیا
وقت سے لوہا لینا آساں کام نہ تھا
اس کوشش میں ہاتھ ہمارا ٹوٹ گیا
ہم خود اس سے ترک تعلق کر بیٹھے
جھوٹا سچا ہر اک وعدہ ٹوٹ گیا
کیا بتلاؤں کون سا تھا بازار خلشؔ
جس میں میرے دل کا جھمکا ٹوٹ گیا

غزل
سوچوں کے ہاتھوں کا گہنا ٹوٹ گیا
خلش بڑودوی