سوچئے ہم سے تغافل بھی بجا ہے کہ نہیں
کہ یہی مقصد ارباب فنا ہے کہ نہیں
زیست میں لمحۂ اندوہ جفا ہے کہ نہیں
اے محبت کوئی تیری بھی خطا ہے کہ نہیں
پست کر دیتے ہیں موجوں کو ابھرنے والے
ڈوبنا خود نہ ابھرنے کی سزا ہے کہ نہیں
چھاؤں میں پھولوں کی آنکھیں تو مچی جاتی ہیں
کون دیکھے یہ چمن جاگ چکا ہے کہ نہیں
ہاں مرے عشق نے سوچے تھے بڑے ہنگامے
تو نے چھپ چھپ کے سہارا بھی دیا ہے کہ نہیں
کیا غلط عشق کو ہے جرم وفا کا اقرار
حسن پر زحمت بیداد و جفا ہے کہ نہیں
تجھ کو بیدارئ گلشن کی قسم ہے کہ بہار
ذہن انساں بھی کہیں جاگ رہا ہے کہ نہیں
سب ہیں شاہد کے بھلانے کا بہانہ کر کے
میں نے ہر وقت ترا نام لیا ہے کہ نہیں
کس کو جینے سے ہے فرصت جو یہ سوچے کہ مجھے
کوئی کام اور بھی جینے کے سوا ہے کہ نہیں
شکریہ آپ کے احساس جفا کا لیکن
یہ کرم فتنۂ آغاز جفا ہے کہ نہیں
ہے ابھی فیصلہ باقی کہ دلوں پر اب تک
آپ سے کوئی ستم ہو بھی سکا ہے کہ نہیں
راز پھولوں پہ بہاروں کا کرم ہے لیکن
یوں بھی کلیوں کا جگر چاک ہوا ہے کہ نہیں

غزل
سوچئے ہم سے تغافل بھی بجا ہے کہ نہیں
راز یزدانی