EN हिंदी
سوچا کہ وا ہو سبز دریچہ جو بند تھا | شیح شیری
socha ki wa ho sabz daricha jo band tha

غزل

سوچا کہ وا ہو سبز دریچہ جو بند تھا

یوسف جمال

;

سوچا کہ وا ہو سبز دریچہ جو بند تھا
پیلاہٹوں کا چہرہ بہت فکر مند تھا

ہر سانس تھوکتی تھی لہو زرد رنگ کا
ہر شخص اس گلی کا اذیت پسند تھا

میٹھے تبسموں کو لیے سب سے بات کی
خود سے کیا کلام تو لب زہر قند تھا

بونا تھا وہ ضرور مگر اس کے باوجود
کردار کے لحاظ سے قد کا بلند تھا

میں نے فصیل شب کو مقدر نہیں کیا
تیرہ شبی میں گھر کے بھی دل ارجمند تھا