سوچ کا زہر نہ اب شام و سحر دے کوئی
عام ہے بے خبری ایسی خبر دے کوئی
سیر آفاق ہو کیوں مشغلۂ فکر و نظر
کاش میرے پر پرواز کتر دے کوئی
دور تک بکھرا ہوا ریت کی صورت ہے وجود
خود کو آواز ادھر دے کہ ادھر دے کوئی
میرے الفاظ نہ کر پائے معانی کو اسیر
کتنے دریاؤں کو اک کوزے میں بھر دے کوئی
منکشف جس سے ہوں اسرار مری ہستی کے
جانے کب مجھ کو وہ عرفان و نظر دے کوئی
غزل
سوچ کا زہر نہ اب شام و سحر دے کوئی
تنویر سامانی