سوچ دی ہے جواب بھی دے
کچھ تو یا رب حساب بھی دے
قطرہ قطرہ شراب برسے
تھوڑا تھوڑا عذاب بھی دے
چاہتوں کے تو سلسلے ہیں
موسموں کا شباب بھی دے
اک کنارا ہے دوسرا بھی
پانیوں میں حباب بھی دے
جس کے کانٹے بھی مجھ کو چومیں
کوئی ایسا گلاب بھی دے
دھوپ ہنستی ہے واہمے بھی
تیرگی دے سراب بھی دے
آگ بستی کا رہنے والا
رنگ گردش سحاب بھی دے
لمحے بھر میں ہزار خواہش
بندہ پرور جواب بھی دے
محبتوں کا عذاب جھیلوں
نفرتوں کا ثواب بھی دے
تیرا میرا حساب کیسا
خواب ہوں اور خواب بھی دے
کن تو میرا وجود ہے ہوں
لفظ اتریں خطاب بھی دے
میں پیمبر نہیں ہوں توبہ
آنکھ دی ہے کتاب بھی دے
میں تو اپنے طواف میں ہوں
راہ خانہ خراب بھی دے
غزل
سوچ دی ہے جواب بھی دے
اعظم خورشید