سوچ بھی اس دن کو جب تو نے مجھے سوچا نہ تھا
کوئی دریا دشت کے اطراف میں بہتا نہ تھا
اس کو کب فرصت تھی جو چہروں کو پڑھتا غور سے
ورنہ سطح آئنہ کا ہر ورق سادہ نہ تھا
جانے کیوں اب رات دن گھر میں پڑا رہتا ہے وہ
پہلے یوں خود میں کبھی سمٹا ہوا رہتا نہ تھا
خوشبوؤں رنگوں کو پی لیتی ہے آکر زرد شام
پیڑ ہے اندیشۂ انجام تو سوکھا نہ تھا
شاہراہوں سے گریزاں ہے مگر کچھ سوچ کر
عادتاً پہلے تو وہ پگڈنڈیاں چلتا نہ تھا

غزل
سوچ بھی اس دن کو جب تو نے مجھے سوچا نہ تھا
فاروق مضطر