EN हिंदी
سوچ بھی اس دن کو جب تو نے مجھے سوچا نہ تھا | شیح شیری
soch bhi us din ko jab tu ne mujhe socha na tha

غزل

سوچ بھی اس دن کو جب تو نے مجھے سوچا نہ تھا

فاروق مضطر

;

سوچ بھی اس دن کو جب تو نے مجھے سوچا نہ تھا
کوئی دریا دشت کے اطراف میں بہتا نہ تھا

اس کو کب فرصت تھی جو چہروں کو پڑھتا غور سے
ورنہ سطح آئنہ کا ہر ورق سادہ نہ تھا

جانے کیوں اب رات دن گھر میں پڑا رہتا ہے وہ
پہلے یوں خود میں کبھی سمٹا ہوا رہتا نہ تھا

خوشبوؤں رنگوں کو پی لیتی ہے آکر زرد شام
پیڑ ہے اندیشۂ انجام تو سوکھا نہ تھا

شاہراہوں سے گریزاں ہے مگر کچھ سوچ کر
عادتاً پہلے تو وہ پگڈنڈیاں چلتا نہ تھا