سو اس کو چھوڑ دیا اس نے جب وفا نہیں کی
پلٹ کے ہم نے کوئی اس سے التجا نہیں کی
پھر اس کے بعد کہیں طبع آشنا نہیں کی
ہمارے دل میں کسی اور نے بھی جا نہیں کی
جگر فگار رہے قیس سے سوا لیکن
گئے نہ دشت کو اور چاک بھی قبا نہیں کی
خدا کو حاضر و ناظر سمجھ کے یہ کہہ دے
کہ ہم نے تجھ سے محبت میں انتہا نہیں کی
مگر تو پھر بھی گلہ مند ہے تو ہوتا رہے
کہ ہم نے تجھ سے وفا کی نہیں تو جا نہیں کی
ضرورتیں تو کئی طرح کی رہیں درپیش
امیر شہر کے در پر کبھی صدا نہیں کی
خفا کیا ہے خدا کو تو بارہا لیکن
خدا کا شکر خفا خلقت خدا نہیں کی
ہمارا زعم سخن رہ گیا دھرے کا دھرا
کہ اس کے سامنے اک بات بھی بنا نہیں کی
رہی ہے دل ہی میں روداد اپنے دکھ کی سکونؔ
کہیں کہا نہیں کی اور کہیں سنا نہیں کی
غزل
سو اس کو چھوڑ دیا اس نے جب وفا نہیں کی
سلطان سکون