سو جاؤں پر کیسے سویا جا سکتا ہے
اس کو بند آنکھوں سے دیکھا جا سکتا ہے
پانی پر تصویر بنائی جا سکتی ہے
اس کا نام ہوا پر لکھا جا سکتا ہے
اب میں جتنی چاہوں خاک اڑا سکتا ہوں
جتنا چاہوں اتنا رویا جا سکتا ہے
سادہ دل دیہاتی تھا سو مان گیا میں
حالانکہ اس گھر تک رکشا جا سکتا ہے
کیا ہم پہلے جیسے بھائی بن سکتے ہیں
اک چولھے پر بیٹھ کے کھایا جا سکتا ہے

غزل
سو جاؤں پر کیسے سویا جا سکتا ہے
وسیم تاشف