سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم
ترے عشق میں کیا سے کیا ہو گئے ہم
نہ جانا کہ شوق اور بھڑکے گا میرا
وہ سمجھے کہ اس سے جدا ہو گئے ہم
دم واپسیں آئے پرسش کو ناحق
بس اب جاؤ تم سے خفا ہو گئے ہم
ہوئے محو کس کی تمنا میں ایسے
کہ مستغنئ ماسوا ہو گئے ہم
انہیں رنج اب کیوں ہوا ہم تو خوش ہیں
کہ مر کر شہید وفا ہو گئے ہم
جب ان سے ادب نے نہ کچھ منہ سے مانگا
تو اک پیکر التجا ہو گئے ہم
تری فکر کا مبتلا ہو گیا دل
مگر قید غم سے رہا ہو گئے ہم
فنا ہو کے راہ محبت میں حسرتؔ
سزاوار خلد بقا ہو گئے ہم
غزل
سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم
حسرتؔ موہانی