EN हिंदी
سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم | شیح شیری
siyahkar the ba-safa ho gae hum

غزل

سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم

حسرتؔ موہانی

;

سیہ کار تھے باصفا ہو گئے ہم
ترے عشق میں کیا سے کیا ہو گئے ہم

نہ جانا کہ شوق اور بھڑکے گا میرا
وہ سمجھے کہ اس سے جدا ہو گئے ہم

دم واپسیں آئے پرسش کو ناحق
بس اب جاؤ تم سے خفا ہو گئے ہم

ہوئے محو کس کی تمنا میں ایسے
کہ مستغنئ ماسوا ہو گئے ہم

انہیں رنج اب کیوں ہوا ہم تو خوش ہیں
کہ مر کر شہید وفا ہو گئے ہم

جب ان سے ادب نے نہ کچھ منہ سے مانگا
تو اک پیکر التجا ہو گئے ہم

تری فکر کا مبتلا ہو گیا دل
مگر قید غم سے رہا ہو گئے ہم

فنا ہو کے راہ محبت میں حسرتؔ
سزاوار خلد بقا ہو گئے ہم