سیہ بستر پڑے ہیں صبح نظارہ اتر آئے
کہ شب کو زینہ زینہ کوئی مہ پارہ اتر آئے
سوار غم رواں ہیں کھول دو عشرت کدوں کے در
خبر کیا کون اندھیرے کا تھکا ہارا اتر آئے
عجب ڈر ہے مٹیلی وادیاں اوپر کو تکتی ہیں
کسی طوفان کی صورت نہ طیارہ اتر آئے
دمک اٹھے مری صبحوں میں وہ ہنستا ہوا چہرہ
مری راتوں میں ان آنکھوں کا غم سارا اتر آئے
حقیقت کی شرر انگیزیوں میں گفتگو اس کی
زباں کھولوں تو جیسے لب پہ انگارہ اتر آئے
درخشاں بازوؤں کی حلقہ حلقہ سرخ سی موجیں
ہمارے خون سے شعلوں کا فوارہ اتر آئے
تماشے بحر کی سطحوں پہ موجوں کے بھی کیا کم ہیں
کہ اوپر سے ہواؤں کی اداکارہ اتر آئے
غزل
سیہ بستر پڑے ہیں صبح نظارہ اتر آئے
ذکاء الدین شایاں