EN हिंदी
سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر (ردیف .. ی) | شیح شیری
siyahi jaise gir jae dam-e-tahrir kaghaz par

غزل

سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر (ردیف .. ی)

مرزا غالب

;

سیاہی جیسے گر جائے دم تحریر کاغذ پر
مری قسمت میں یوں تصویر ہے شب ہاۓ ہجراں کی

کہوں کیا گرم جوشی مے کشی میں شعلہ رویاں کی
کہ شمع خانۂ دل آتش مے سے فروزاں کی

ہمیشہ مجھ کو طفلی میں بھی مشق تیرہ روزی تھی
سیاہی ہے مرے ایام میں لوح دبستاں کی

دریغ! آہ سحر گہ کار باد صبح کرتی ہے
کہ ہوتی ہے زیادہ سرد مہری شمع رویاں کی

مجھے اپنے جنوں کی بے تکلف پردہ داری تھی
ولیکن کیا کروں آوے جو رسوائی گریباں کی

ہنر پیدا کیا ہے میں نے حیرت آزمائی میں
کہ جوہر آئینہ کا ہر پلک ہے چشم حیراں کی

خدایا کس قدر اہل نظر نے خاک چھانی ہے
کہ ہیں صد رخنہ جوں غربال دیواریں گلستاں کی

ہوا شرم تہی دستی سے سے وہ بھی سرنگوں آخر
بس اے زخم جگر اب دیکھ لے شورش نمکداں کی

بیاد گرمیٔ صحبت بہ رنگ شعلہ دہکے ہے
چھپاؤں کیونکہ غالبؔ سوزشیں داغ نمایاں کی

جنوں تہمت کش تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاش خراش دل ہے لذت زندگانی کی

کشاکش‌ ہاۓ ہستی سے کرے کیا سعی آزادی
ہوئی زنجیر موج آب کو فرصت روانی کی

نہ کھینچ اے سعیٔ دست نارسا زلف تمنا کو
پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانی کی

کہاں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں انصاف بہتر ہے
نہ کھینچے طاقت خمیازہ تہمت ناتوانی کی

تکلف برطرف فرہاد اور اتنی سبکدستی
خیال آساں تھا لیکن خواب خسرو نے گرانی کی

پس از مردن بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرار سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

اسدؔ کو بوریے میں دھر کے پھونکا موج ہستی نے
فقیری میں بھی باقی ہے شرارت نوجوانی کی