سیاہ خانۂ دل پر نظر بھی کرتا ہے
میری خطاؤں کو وہ درگزر بھی کرتا ہے
پرند اونچی اڑانوں کی دھن میں رہتا ہے
مگر زمیں کی حدوں میں بسر بھی کرتا ہے
تمام عمر کے دریا کو موڑ دیتا ہے
وہ ایک حرف جو دل پر اثر بھی کرتا ہے
وہ لوگ جن کی زمانہ ہنسی اڑاتا ہے
اک عمر بعد انہیں معتبر بھی کرتا ہے
جلا کے دشت طلب میں امید کی شمعیں
اذیتوں سے ہمیں بے خبر بھی کرتا ہے
غزل
سیاہ خانۂ دل پر نظر بھی کرتا ہے
خلیل تنویر