EN हिंदी
سوا ہے حد سے اب احساس کی گرانی بھی | شیح شیری
siwa hai had se ab ehsas ki girani bhi

غزل

سوا ہے حد سے اب احساس کی گرانی بھی

زاہدہ زیدی

;

سوا ہے حد سے اب احساس کی گرانی بھی
گراں گزرنے لگی ان کی مہربانی بھی

کس اہتمام سے پڑھتے رہے صحیفۂ زیست
چلیں کہ ختم ہوئی اب تو وہ کہانی بھی

لکھو تو خون جگر سے ہوا کی لہروں پر
یہ داستاں انوکھی بھی ہے پرانی بھی

کسی طرح سے بھی وہ گوہر طلب نہ ملا
ہزار بار لٹائی ہے زندگانی بھی

ہمیں سے انجمن عشق معتبر ٹھہری
ہمیں کو سونپی گئی غم کی پاسبانی بھی

یہ کیا عجب کہ وہی بحر نیستی میں گری
نفس کی موج میں مستی بھی تھی روانی بھی

شعور و فکر سے آگے ہے چشمۂ تخلیق
ہٹے گا سنگ تو بہنے لگے گا پانی بھی