ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں
ہمیں فریاد کی عادت ہے ہم فریاد کرتے ہیں
متاع زندگانی اور بھی برباد کرتے ہیں
ہم اس صورت سے تسکین دل ناشاد کرتے ہیں
ہواؤ ایک پل کے واسطے للہ رک جاؤ
وہ میری عرض پر دھیمے سے کچھ ارشاد کرتے ہیں
نہ جانے کیوں یہ دنیا چین سے جینے نہیں دیتی
کوئی پوچھے ہم اس پر کون سی بیداد کرتے ہیں
نظر آتا ہے ان میں بیشتر اک نرم و نازک دل
مصائب کے لیے سینے کو جو فولاد کرتے ہیں
خدا کی مصلحت کچھ اس میں ہوگی ورنہ بے حس بت
کسے شاداں بناتے ہیں کسے ناشاد کرتے ہیں
نہیں دیکھا کہیں جو ماجرائے عشق میں دیکھا
کہ اہل درد چپ ہیں چارہ گر فریاد کرتے ہیں
اسیر دائمی گر دل نہ ہو تو اور کیا ہو جب
کہیں وہ مسکرا کر جا تجھے آزاد کرتے ہیں
کیا ہوگا کبھی آدم کو سجدہ کہنے سننے سے
فرشتے اب کہاں پروائے آدم زاد کرتے ہیں
ہمیں اے دوستو چپ چاپ مر جانا بھی آتا ہے
تڑپ کر اک ذرا دل جوئی صیاد کرتے ہیں
بہت سادہ سا ہے اے کیفؔ اپنے غم کا افسانہ
وہ ہم کو بھول بیٹھے ہیں جنہیں ہم یاد کرتے ہیں
غزل
ستم گر تجھ سے ہم کب شکوۂ بیداد کرتے ہیں
سرسوتی سرن کیف