ستم ظریفی کی صورت نکل ہی آتی ہے
رقیب کی بھی ضرورت نکل ہی آتی ہے
قدم رکھیں تو کہاں آب و ریگ و خاک پہ ہم
سبھی جگہ کوئی تربت نکل ہی آتی ہے
حساب قرب و کشش کر کے کیوں ہوں شرمندہ
مرے لہو کی تو قیمت نکل ہی آتی ہے
ہے پل صراط کی ہی بو نسائی راہ جہاں
یہاں بھی حشر کی حالت نکل ہی آتی ہے
بڑے زمانے سے ہوں دشمنوں کی آنکھوں میں
کسی میں چشم مروت نکل ہی آتی ہے
میں مرکزہ ہوں مگر مرکزہ بھنور کا ہوں
کسی بھی موج سے قربت نکل ہی آتی ہے
یہ شاعری ہے پڑوسی کے پتھروں کے سبب
تراشتا ہوں تو جدت نکل ہی آتی ہے

غزل
ستم ظریفی کی صورت نکل ہی آتی ہے
تفضیل احمد