ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا خطائے نظر سے پہلے عتاب جرم سخن سے پہلے
جو چل سکو تو چلو کہ راہ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام ہے اب کوئی نہ منزل فراز دار و رسن سے پہلے
نہیں رہی اب جنوں کی زنجیر پر وہ پہلی اجارہ داری
گرفت کرتے ہیں کرنے والے خرد پہ دیوانہ پن سے پہلے
کرے کوئی تیغ کا نظارا اب ان کو یہ بھی نہیں گوارا
بضد ہے قاتل کہ جان بسمل فگار ہو جسم و تن سے پہلے
غرور سرو و سمن سے کہہ دو کہ پھر وہی تاجدار ہوں گے
جو خار و خس والئ چمن تھے عروج سرو و سمن سے پہلے
ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے ادھر تقاضائے درد دل ہے
زباں سنبھالیں کہ دل سنبھالیں اسیر ذکر وطن سے پہلے
غزل
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن نہ تھی تری انجمن سے پہلے
فیض احمد فیض