ستم کے بعد کرم کی ادا بھی خوب رہی
جفا تو خیر جفا تھی وفا بھی خوب رہی
بہ فیض گردش دوراں انہیں بھی پیار آیا
بہ پاس مصلحت ان کی رضا بھی خوب رہی
بصد خلوص قناعت کی داد ملتی ہے
گدا نوازیٔ اہل سخا بھی خوب رہی
لگی ہے مہر مقدر کی دانے دانے پر
یہ خوش مذاقیٔ شان خدا بھی خوب رہی
کہیں شکم کے تقاضے نظر نہیں آتے
چراغ دیر و حرم کی ضیا بھی خوب رہی
ہمارے ہاتھ سے آتی ہے بوئے پیراہن
ہمارے حسن طلب کی ادا بھی خوب رہی
غزل
ستم کے بعد کرم کی ادا بھی خوب رہی
قتیل شفائی