ستم ہے دل کے دھڑکنے کو بھی قرار کہیں
تمہارے جبر کو اپنا ہی اختیار کہیں
سکوں وہی ہے جسے چارہ گر سکوں کہہ دیں
کہاں یہ اذن کہ کچھ تیرے بے قرار کہیں
چھپائیں داغ جگر پھول جتنا ممکن ہو
کہیں نہ اہل نظر ان کو دل فگار کہیں
فضا ہے ان کی چمن ان کے آشیاں ان کے
خزاں کے زخم کو جو غنچۂ بہار کہیں
پئے ہیں اشک ہزاروں تو لب پہ آئی ہے
وہ اک ہنسی کہ جسے فرض ناگوار کہیں
اندھیری شب میں جلیں گے چراغ بن بن کے
وہ نقش پا کہ جنہیں راہ کا غبار کہیں
سمجھ سکے گا وہاں کون راز میخانہ
نسیمؔ تشنہ لبی کو جہاں خمار کہیں

غزل
ستم ہے دل کے دھڑکنے کو بھی قرار کہیں
وحیدہ نسیم