ستم ہے اپنا کسی نے بنا کے لوٹ لیا
مری نظر سے نظر کو ملا کے لوٹ لیا
حریم ناز کے پردے میں جو نہاں تھا کبھی
اسی نے شوخ ادائیں دکھا کے لوٹ لیا
رہا نہ ہوش مجھے اس کے بعد پھر کچھ بھی
کی جب کسی نے مقابل میں آ کے لوٹ لیا
عجیب ناز سے الٹی نقاب رخ اس نے
کی مجھ کو روح منور دکھا کے لوٹ لیا
لو ہم بھی آج تو تاباںؔ فریب کھا بیٹھے
کسی نے یوں ہی محبت سے جا کے لوٹ لیا

غزل
ستم ہے اپنا کسی نے بنا کے لوٹ لیا
انور تاباں