ستارہ ساز یہ ہم پر کرم فرماتے رہتے ہیں
اندھیری رات میں جگنو سا کچھ چمکاتے رہتے ہیں
سنا ہے شور سے حل ہوں گے سارے مسئلے اک دن
سو ہم آواز کو آواز سے ٹکراتے رہتے ہیں
جہاں میں امن کیسے پھیلتا ہے کیسے پھیلے گا
وہ سب کو تیر سے تلوار سے سمجھاتے رہتے ہیں
یہ کیسی بھیڑ میرے گرد ہے گھبرا گیا ہوں میں
تماشہ دیکھنے والے تو آتے جاتے رہتے ہیں
بڑا دلچسپ کاروبار اب کے سال چل نکلا
ہوس کے آئینے کو عشق سے چمکاتے رہتے ہیں
اسی دنیا سے دیواریں اٹھانا ہم نے سیکھا ہے
ہم اس دنیا کو ہر دیوار سے ٹکراتے رہتے ہیں
غزل
ستارہ ساز یہ ہم پر کرم فرماتے رہتے ہیں
نعمان شوق