صرف تھوڑی سی ہے انا مجھ میں
ورنہ باقی ہے بس خلا مجھ میں
اندر اندر مجھے یہ کھاتی ہے
ایک بھوکی سی ہے بلا مجھ میں
ڈھہ رہا ہوں میں اک کھنڈر کی طرح
اک بھٹکتی ہے آتما مجھ میں
اب ہر اک بات پر میں راضی ہوں
جانے یہ کون مر گیا مجھ میں
میری آوارگی سے گھبرا کر
مڑ گیا میرا راستہ مجھ میں
دیکھ کر مجھ کو اس قدر خاموش
ایک دریا اتر گیا مجھ میں
میں نے قابو میں اس کو رکھا ہے
وہ جو رہتا ہے سرپھرا مجھ میں
میں تھا ایسا کہاں سہیلؔ کبھی
اب تو ہے کوئی دوسرا مجھ میں
غزل
صرف تھوڑی سی ہے انا مجھ میں
سہیل اختر