صرف خاکہ ابھر رہا ہے ابھی
کوئی چہرہ کہاں بنا ہے ابھی
ریزہ ریزہ بکھرتی آنکھوں میں
گھر کا سپنا بسا ہوا ہے ابھی
کیسے کہہ دوں بدل گیا موسم
زخم دل میں سجا ہوا ہے ابھی
کن رتوں کا حساب دوں اس کو
سبز موسم کہاں ملا ہے ابھی
رات آدھی گزر چکی ہے مگر
اک دریچہ کھلا ہوا ہے ابھی
شمعیں سب بجھ گئیں خموش ہے رات
اور دل ہے کہ جاگتا ہے ابھی
کیا ملیں تجھ سے تو نے خود کو نگارؔ
معتبر ہی کہاں کیا ہے ابھی
غزل
صرف خاکہ ابھر رہا ہے ابھی
نگار عظیم