صرف اتنے جرم پر ہنگامہ ہوتا جائے ہے
تیرا دیوانہ تری گلیوں میں دیکھا جائے ہے
آپ کس کس کو بھلا سولی چڑھاتے جائیں گے
اب تو سارا شہر ہی منصور بنتا جائے ہے
دلبروں کے بھیس میں پھرتے ہیں چوروں کے گروہ
جاگتے رہیو کہ ان راتوں میں لوٹا جائے ہے
تیرا مے خانہ ہے یا خیرات خانہ ساقیا
اس طرح ملتا ہے بادہ جیسے بخشا جائے ہے
مے کشو آگے بڑھو تشنہ لبو آگے بڑھو
اپنا حق مانگا نہیں جاتا ہے چھینا جائے ہے
موت آئی اور تصور آپ کا رخصت ہوا
جیسے منزل تک کوئی رہ رو کو پہونچا جائے ہے
غزل
صرف اتنے جرم پر ہنگامہ ہوتا جائے ہے
کیف بھوپالی