صرف اتنا قصوروار ہوں میں
چاہتا تجھ کو بے شمار ہوں میں
جو محبت تھی وہ ادا کر دی
تیری نفرت کا قرض دار ہوں میں
کچھ خطا ہے مری نہ کوئی گناہ
تنگ نظری کا بس شکار ہوں میں
حادثے میرا کیا بگاڑیں گے
ماں کی آنکھوں کا انتظار ہوں میں
منزلیں روح طے کرے گی خود
کشتیٔ جسم پر سوار ہوں میں
غزل
صرف اتنا قصوروار ہوں میں
مظہر عباس