EN हिंदी
سمٹے تو ایسے شمس و قمر میں سمٹ گئے | شیح شیری
simTe to aise shams-o-qamar mein simaT gae

غزل

سمٹے تو ایسے شمس و قمر میں سمٹ گئے

مشتاق نقوی

;

سمٹے تو ایسے شمس و قمر میں سمٹ گئے
بکھرے تو ایسے خاک کے ذروں میں بٹ گئے

منزل کہاں سفر ہی سفر ہو گئی حیات
اتنا چلے کہ پاؤں سے رستے لپٹ گئے

یہ وقت کا کرم ہے کہ رکتے نہیں ہیں دن
کٹنا نہ چاہئے تھا جنہیں وہ بھی کٹ گئے

اب دیکھنا ہے کون سنوارے گا تیرے پھول
اک ہم ہی تیری راہ کا کانٹا تھے ہٹ گئے

قد آوری پہ ہم کو بہت ناز تھا مگر
جب زندگی کی آگ سے گزرے تو گھٹ گئے