EN हिंदी
سمٹے رہے تو درد کی تنہائیاں ملیں | شیح شیری
simTe rahe to dard ki tanhaiyan milin

غزل

سمٹے رہے تو درد کی تنہائیاں ملیں

یوسف اعظمی

;

سمٹے رہے تو درد کی تنہائیاں ملیں
جب کھل گئے تو دہر کی رسوائیاں ملیں

خوابوں کے اشتہار تھے دیوار جسم پر
دل کو ہر ایک موڑ پہ بے خوابیاں ملیں

ہونٹوں کو چومتی تھیں منور خموشیاں
برفاب سی گپھاؤں میں سرگوشیاں ملیں

دشوار راستوں پہ تو کچھ اور بات تھی
یوں دل کو موڑ موڑ پہ آسانیاں ملیں

جو ہاتھ اپنا نام بھی لکھ کر نہ جی سکا
اس ہاتھ کو حیات کی سرداریاں ملیں