سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی
بپھر کے میری لہر لہر انگارہ تھی
کل تری خواہش کب اتنی بنجاری تھی
تو سرتاپا آنکھ تھا میں نظارہ تھی
میں کہ جنوں کے پروں پہ اڑتی خوشبو تھی
رنگ رنگ کے آکار میں ڈھلتا پارہ تھی
میں دھرتی ہوں اسے یہی بس یاد رہا
بھول گیا میں اور بھی اک سیارہ تھی
تو ہی تو اذن تھا تو ہی انجام ہوا
ترا بچھڑنا اور میں پارہ پارہ تھی

غزل
سمٹ گئی تو شبنم پھول ستارہ تھی
عذرا پروین