سلسلہ لفظوں کی سوغات کا بھی ٹوٹ گیا
رابطہ خط سے ملاقات کا بھی ٹوٹ گیا
ماں کی آغوش میں الفت کی روانی پا کر
باندھ ٹھہرے ہوئے جذبات کا بھی ٹوٹ گیا
احترام اپنے بزرگوں کا ادب چھوٹوں کا
اب چلن ایسی روایات کا بھی ٹوٹ گیا
رات کے ماتھے پہ سورج نے سحر لکھ دی ہے
آسرا اس سے ملاقات کا بھی ٹوٹ گیا
آ گیا کیسے وہ اب اپنی انا سے باہر
کیا حصار آج مری ذات کا بھی ٹوٹ گیا
آج اخبار کی خبریں بھی ہیں مشکوک فرازؔ
آئنہ صورت حالات کا بھی ٹوٹ گیا
غزل
سلسلہ لفظوں کی سوغات کا بھی ٹوٹ گیا
مجاہد فراز