سلسلہ جب تری باتوں کا جواں ہوتا ہے
تب ہر اک جام بکف جانے کہاں ہوتا ہے
اف رے وہ آہ جو سینے سے نکل بھی نہ سکے
ہائے وہ درد جو آنکھوں میں نہاں ہوتا ہے
خود فریبی ہے تھکن ہے کہ شکستہ پائی
ہر قدم پر مجھے منزل کا گماں ہوتا ہے
ان کی نظروں کا بڑھاوا ہے وگرنہ ہم سے
حال دل کب کسی صورت میں بیاں ہوتا ہے
محفل غیر میں کیا عشق و وفا کی باتیں
یاں تو یہ ذکر بھی ذہنوں پہ گراں ہوتا ہے

غزل
سلسلہ جب تری باتوں کا جواں ہوتا ہے
مشتاق نقوی