EN हिंदी
سینوں میں تپش ہے کبھی شورش ہے سروں میں | شیح شیری
sinon mein tapish hai kabhi shorish hai saron mein

غزل

سینوں میں تپش ہے کبھی شورش ہے سروں میں

خورشید رضوی

;

سینوں میں تپش ہے کبھی شورش ہے سروں میں
کیا چیز بسا دی گئی مٹی کے گھروں میں

چلتا ہوں سدا ساتھ لئے اپنی فصیلیں
پہچان سکا کون مجھے ہم سفروں میں

اڑنا ہے تو تہذیب کرو سوز دروں کی
یہ ورنہ کہیں آگ لگا دے نہ پروں میں

غیروں میں ہوئی عام تری دولت دیدار
اک کحل بصر تھا کہ لٹا بے‌ بصروں میں

دو گام پہ تم خود سے بچھڑ جاتے ہو خورشیدؔ
اور لوگ سمجھتے ہیں تمہیں راہبروں میں