سینے میں کسک بن کے اترنے کے لیے ہے
ہر لمحۂ حاصل کہ گزرنے کے لیے ہے
سنورے گا نہ اس شام سر آئینہ کوئی
یہ شام تو تیرے ہی سنورنے کے لیے ہے
ناموس گلستاں کا تقاضا سہی کچھ بھی
خوشبو تو مگر قید نہ کرنے کے لیے ہے
تم ریت میں چاہو تو اسے کھے نہ سکوگے
کشتی جو سمندر میں اترنے کے لیے ہے
کچھ اور نہیں دل کی تمناؤں کا حاصل
اس شاخ کا ہر پھول بکھرنے کے لیے ہے
سوئی ہوئی ہر ٹیس کبھی جاگ اٹھے گی
جو زخم ہے اس دل میں نہ بھرنے کے لیے ہے
تصویر غم دل نہ کبھی ماند پڑے گی
مٹتا ہوا ہر نقش ابھرنے کے لیے ہے
یہ قافلۂ عمر رواں راہ طلب پر
دو چار قدم چل کے ٹھہرنے کے لیے ہے
مخمورؔ یہ دنیا وہ رسد گاہ اجل ہے
زندہ ہے یہاں کوئی تو مرنے کے لیے ہے

غزل
سینے میں کسک بن کے اترنے کے لیے ہے
مخمور سعیدی