سینے میں آگ آنکھ سوئے در لگی رہے
کام انتظار یار میں اے دل یہی رہے
پہلو کے ساتھ چاک جگر بھی ضرور ہے
خنجر کے ساتھ ایک قرولی لگی رہے
دعوت مہ صیام کی لازم ہے زاہدو
دس بیس روز مشغلۂ مے کشی رہے
اے طفل ڈر ہے چشم بد پر چرخ کا
ہیکل ضرور تیرے گلے میں پڑی رہے
سو لطف وصل اٹھائیں گے اک اور لے کے نیند
احسان ہے جو مرغ سحر چپ ابھی رہے
تین آسمانوں سے نہیں چھپتا ہے آفتاب
کب اک نقاب سے تری صورت چھپی رہے
آؤ نہ میرے گھر تو نہ جاؤ کسی کے گھر
میری خوشی رہے نہ تمہاری خوشی رہے
سونے کے وقت اے گل تر عطر کیا ضرور
تیری گلی میں رات کو چمپا کلی رہے
حکم شراب دے تو دعا دوں کہ اے فقیہ
مستوں کے ہاتھ سے تری عزت بچی رہے
یہ غرۂ رجب سے وفور شراب ہو
خالی کے بعد تک بھی طبیعت بھری رہے
خالی نہ کوئی شعر ہو بندش کے نور سے
اے مہرؔ عالم غزل انوریؔ رہے
غزل
سینے میں آگ آنکھ سوئے در لگی رہے
سید آغا علی مہر