سینے کی مثال آگ ہے چاندی سا دھواں ہے
کیا خوب مرے گھر کی تباہی کا سماں ہے
دیکھوں تو مرے غم میں شریک ایک زمانہ
سوچوں تو یہاں کوئی مکیں ہے نہ مکاں ہے
کس درجہ طلسمی ہے مرے گاؤں کا منظر
سوکھے ہوئے ہر کھیت پہ سبزے کا گماں ہے
ایسا بھی کوئی شہر تمنا ہے زمیں پر
لٹنے کا جہاں خوف نہ اندیشۂ جاں ہے
پیتل کا خریدار سمجھتے ہیں مجھے لوگ
ہر شخص کی بازار میں چاندی کی دکاں ہے
عاری ہے مگر زخم سے ہر سایۂ دیوار
ہر چند کی دیوار پہ بارش کا نشاں ہے
پتھر کے کسی شہر میں آباد ہے شاہدؔ
ہے موم کا انسان تو شیشے کا مکاں ہے

غزل
سینے کی مثال آگ ہے چاندی سا دھواں ہے
شاہد شیدائی