EN हिंदी
سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے | شیح شیری
sine ke zaKHm panw ke chhaale kahan gae

غزل

سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے

کلیم عاجز

;

سینے کے زخم پاؤں کے چھالے کہاں گئے
اے حسن تیرے چاہنے والے کہاں گئے

شانوں کو چھین چھین کے پھینکا گیا کہاں
آئینے توڑ پھوڑ کے ڈالے کہاں گئے

خلوت میں روشنی ہے نہ محفل میں روشنی
اہل وفا چراغ وفا لے کہاں گئے

بت خانے میں بھی ڈھیر ہیں ٹکڑے حرم میں بھی
جام و سبو کہاں تھے اچھالے کہاں گئے

آنکھوں سے آنسوؤں کو ملی خاک میں جگہ
پالے کہاں گئے تھے نکالے کہاں گئے

برباد روزگار ہمارا ہی نام ہے
آئیں تماشا دیکھنے والے کہاں گئے

چھپتے گئے دلوں میں وہ بن کر غزل کے بول
میں ڈھونڈھتا رہا مرے نالے کہاں گئے

اٹھتے ہوؤں کو سب نے سہارا دیا کلیمؔ
گرتے ہوئے غریب سنبھالے کہاں گئے