سینے کے داغ ان کو دکھائے نہ جا سکے
مجھ سے فسانے غم کے سنائے نہ جا سکے
ایسے نگر میں میرا مقدر ہوا مقیم
جس میں خوشی کے دیپ جلائے نہ جا سکے
ایوان صبر آج زمیں بوس ہو گیا
پلکوں میں اشک مجھ سے چھپائے نہ جا سکے
ہم نے تو خون دل سے کھلائے ہیں گلستاں
تم سے تو خار و خس بھی اگائے نہ جا سکے
گلشن جو تھا خلوص کا یکسر جھلس گیا
جب نفرتوں کے شعلے بجھائے نہ جا سکے
بار گراں اٹھاتا رہا ہوں مگر ولیؔ
احساں کسی کے مجھ سے اٹھائے نہ جا سکے
غزل
سینے کے داغ ان کو دکھائے نہ جا سکے
ولی مدنی